Justuju Tv جستجو ٹی وی

Equipped with Google Analytics گوگل کے تجزیہ کار سے مرصع



All New Justuju Web TV Channel

Sunday, May 18, 2008

Vigilante Justice in Karachi

ہ ڈاکوؤں کو جلانے کی ایک اور واردات


May 17, 2008


Karachi | Where is law and order?


KARACHI: Alleged robbers are engulfed in flames after a mob burnt them alive on Saturday. daily times

ہفتے کے روز کراچی میں مبینہ ڈاکوؤں کو جلانے کا دوسرا واقعہ نارتھ ناظم آباد میں پیش آیا۔

عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ ملزم دانش اور اُس کا ایک ساتھی منی بس میں مسافروں سے لوٹ مار کرکے بس سے اُترا۔ شور سن کر وہاں موجود لوگ بھی مسافروں کے ساتھ شامل ہوگئے اور دونوں کو پکڑ کر آگ لگادی۔ دونوں بری طرح جل گئے جِنہیں اسپتال میں داخل کرادیا گیا۔

ڈاکٹروں کے مطابق اُن کی حالت تشویش ناک ہے۔

موقع پر موجود پولیس اہل کاروں نے اُنہیں بچانے کی کوشش کی جِس پر مشتعل ہجوم نے اُنہیں بھی جلانے کی کوشش کی، تاہم ناکام رہے۔البتہ، اُنہیں بری طرح سے تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔

ڈی آئی جی سینٹرل علیم جعفری نے واقعے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ نامعلوم افراد کے خلاف مقدمہ درج کیا جا رہا ہے۔

یاد رہے کہ تین روز قبل کراچی کے جنوبی علاقے میں گھر میں گھسنے والے تین ڈاکوؤں کو مشتعل افراد نے زندہ جلا دیا تھا۔ وقوعہ کے بعد تھانہ انچارج کو معطل کر دیا گیا ہے، جب کہ 17افراد کو گرفتار کیا گیا۔

کراچی میں حالیہ سالوں میں اسٹریٹ کرائم میں بے تحاشا اضافہ ہوا ہے جِس سے لوگوں کی ایک بڑی تعداد متاثر ہو رہی ہے۔

اسٹریٹ کرائم کی وارداتوں میں بہت سے لوگوں کی جانیں بھی ضائع ہوئی ہیں۔ شہر میں لوٹ مار اور اسٹریٹ کرائم سے عاجز لوگوں کے اِس رویے کو ماہرینِ عمرانیات ردِ عمل اور قانون نافذ کرنے والے اداروں پر عدم اعتماد قرار دے رہے ہیں۔جرائم کی وجہ سے لوگوں میں بے چینی بڑھ رہی ہے اور یہ اُن کا ردِ عمل ہو سکتا ہے۔

نئی حکومت نے ملک میں امن و امان کے مسئلے کو اہم قرار دے کر اُسے حل کرنے کے عزم کا اعلان کیا ہے


کراچی میں تشدد کا بڑھتا ہوا رحجان


کراچی
واقعے کے بعد ایمبولنس لاشیں اٹھا کر لے جا رہی ہے
کراچی میں جرائم میں اضافے نے عام لوگوں کو شدت پسندی کی طرف دھکیل دیا ہے، جرائم پیشہ افراد پر ہجوم کی جانب سے تشدد کے واقعات میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ ایک حالیہ واقعے میں تین مبینہ ڈاکوؤں کو لوگوں نے تشدد کے بعد آگ لگا دی جس میں تینوں ہلاک ہوگئے۔ یہ اپنی طرز کا پہلا واقعہ ہے۔

یہ واقعہ بدھ کو اس وقت پیش آیا جب جب کراچی کے ایک قدیم علاقے رنچھوڑ لائن میں تین مسلح افراد ایک گھر میں داخل ہوگئے۔

گھر کے زخمی مالک اکبر سومرو کے کزن شاہد نے بی بی سی کو بتایا کہ دوپہر بارہ بجے کے قریب تین افراد نے دروازہ کھٹکھٹایا تو ایک چھوٹی بچی نے جاکر دروازہ کھولا اور ایک دم تین افراد گھر میں داخل ہوگئے۔

انہوں نے بتایا کہ اس وقت مردوں میں سے صرف اکبر کے والد موجود تھے جن کو مسلح افراد نے ایک کمرے میں بند کردیا اس کے بعد گھر میں باقی بچنے والی خواتین سے انہوں نے زیوارت اور نقدی لوٹ لی۔

شاہد سومرو نے بتایا کہ اسی دوران اکبر گھر پہنچے اور گھر کا سامنے کا دروازہ بند پا کر عقبی راستے سے جیسے ہی گھرمیں داخل ہوئے تو مسلح افراد نے انہیں یرغمال بنالیا اور مزاحمت کرنے پر ان پر گولی چلائی جو ان کی کمر میں لگی جس پر خواتین مشتعل ہوگئیں اور ملزمان نے صورتحال دیکھ کر فرار ہونے کی کوشش کی لیکن اس دوران خواتین کی چیخ و پکار اور فائر کی آواز سن کر لوگ جمع ہوگئے۔

ٹمبر مارکیٹ کی سڑک سے پولیس کو جھلسی ہوئی لاشیں ملیں، سول ہسپتال کے میڈیکل لیگل افسر کا کہنا ہے کہ ہلاک ہونے والے چالیس فیصد تک جل گئے تھے۔

ایس پی صدر پولیس ڈاکٹر امیر شیخ کے مطابق ملزمان کے پاس اسلحہ تھا مگر وہ ہزار ڈیڑھ ہزار لوگوں کے سامنے مجبور ہوگئے، لوگوں نے ان پر تشدد کیا اور بعد میں ان کے کپڑوں کو آگ لگا دی۔

ایس پی پولیس کے مطابق پولیس پہنچ گئی تھی مگر لوگ بضد تھے کہ وہ ملزمان کو گولی ماریں مگر اہلکاوں نے ایسا کرنے سے انکار کیا اور ہجوم کی موجودگی میں پولیس اہلکار مجبور ہوگئے۔

مبینہ ڈاکو اسلحے کے باوجود مجبور
ملزمان کے پاس اسلحہ تھا مگر وہ ہزار ڈیڑھ ہزار لوگوں کے سامنے مجبور ہوگئے، لوگوں نے ان پر تشدد کیا اور بعد میں ان کے کپڑوں کو آگ لگا دی۔
ڈاکٹر امیر شیخ

ہلاک ہونے والے تینوں میں سے پولیس نے ایک ملزم کی شناخت بابر ہزاروی کے نام سے کی ہے جو پولیس کے مطابق رکشہ ڈرائیور تھا۔

کراچی میں حالیہ سالوں میں سٹریٹ کرائم میں اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے، جس سے لوگوں کی ایک بڑی تعداد متاثر ہو رہی ہے ۔ سٹیزن پولیس لیژاں کمیٹی کے مطابق صرف بدھ کو 21 موٹر سائیکلیں،21 موبائل ٹیلیفون اور کاریں چھینی گئیں۔

سٹیزن پولیس لیژاں کمیٹی کے سربراہ شریف الدین میمن کا کہنا ہے ان واقعات سے تو یہ تاثر ملتا ہے کہ لوگ چاہتے ہیں کہ وہ اپنا فیصلہ خود کریں، ان کے مطابق جرائم کی وجہ سے لوگوں کی فرسٹریشن بڑھ رہی ہے۔ یہ ان کا رد عمل ہوسکتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں پر جب لوگوں کا اعتماد اٹھنے لگتا ہے تو پھر لوگ اس طرح کے ردعمل کا اظہار کرتے ہیں۔

ایس پی امیر شیخ کا کہنا ہے کہ ان واقعات کی وجہ پورا جسٹس سسٹم ہے پولیس بھی اس کا ایک حصہ ہے۔ سو فیصد کہنا کہ یہ پولیس کی ناکامی ہے جو درست نہیں ہے۔ نوے فیصد واقعات میں تو ڈاکو پکڑ کر پولیس کے حوالے کیے جاتے ہیں اعتماد ہے تبھی تو پولیس کے حوالے ہوتے ہیں۔

لوگوں کے اشتعال کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ اس کا انحصار صورتحال پر ہوتا ہے ماحول ایسا ہث جاتا ہے جس میں لوگ مشتعل ہوکر ایسے واقعات کر گذرتے ہیں یا انہیں کچھ گروہ یا لوگ اشتعال میں لاتے ہیں۔

عوامی رد عمل کے ان واقعات کی ابتدا کوئی دو سال قبل اس وقت ہوئی جب ایک موٹر سائیکل سوار کو گلشن اقبال میں ایک ٹینکر نے ٹکر مارکر ہلاک کردیا مشتعل افراد نے اس ٹینکر کو نذر آتش کردیا۔ جس کے بعد نیو کراچی، اورنگی، کورنگی مومن آباد میں بھی ایسے واقعات پیش آئے جن میں لوگوں نے مبینہ ڈاکوں کو تشدد کرکے ہلاک کردیا یا حادثہ کرنے والی گاڑی کو نذر آتش کردیا۔

کراچی
علاقے کے لوگ جلتے ہوئے جسموں کے گرد جمع ہیں

نفسیاتی ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ رویہ معاشرے میں موجود انارکی کی عکاسی کرتا ہے۔

ماہر نفسیات ڈاکٹر واصف علی کا کہنا ہے جب لوگ اس طرح مارنا شروع کردیتے ہیں تو اس کے پیچھے سماجی عوامل ہوتے ہیں، بدقسمتی سے سماجی قدروں کی یہاں کوئی پاسداری نہیں۔

معاشرے میں سماجی عدم توازان ہے چالیس فیصد لوگ غربت کی لکیر سے نیچے کی زندگی گزار رہے ہیں اگر قانون اور عدلیہ کی بات کریں تو تاثر یہ ہے کہ یہ صرف غریب کے لیے ہی استعمال ہوتا ہے۔

وفاقی حکومت اور سندھ کی نو منتخب حکومت نے کراچی میں امن امان کی بحالی کے لیے اپنی اولین ترجیح سٹریٹ کرائم کو قرار دیاہے مگر اب تک اس بارے میں ٹھوس اقدامات نہیں اٹھائے گئے ہیں۔




No comments: