Justuju Tv جستجو ٹی وی

Equipped with Google Analytics گوگل کے تجزیہ کار سے مرصع



All New Justuju Web TV Channel

Tuesday, May 26, 2009

پنجاب کی خواتین پولیس کے ساتھ زیادتی









لیڈی پولیس سیکنڈل

احمدنور

پنجاب پولیس نے جنسی دھندے میں ملوث ہونے کے الزام میں خاتون سب انسپکٹر سمیت تین پولیس کانسٹیبلز کو معطل کردیا ہے اور معاملے کی چھان بین کے لیے محکمانہ انکوائری کا آغاز کردیا ہے۔ لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس، مسٹر جسٹس خواجہ محمد شریف نے بھی اعلیٰ سول اور پولیس افسران کی زیرِ سر پرستی خواتین پولیس اہلکاروں سے جسم فروشی کروانے کے معاملے کا از خود نوٹس لیا ہے اور پولیس کو حکم دیا ہے کہ وہ انکوائری مکمل کرکے 02 جون کو حتمی رپورٹ پیش کرے۔

محکمہ پولیس کی دیگر بدعنوانیوں کے قصے تو زبان زد ِعام تھے ہی لیکن پولیس میں جنسی کرپشن کی یہ انوکھی مثال پہلی دفعہ سامنے آئی ہے۔ لیڈیز پولیس کے طور پر بھرتی ہونے والی خواتین سے جسم فروشی کا دھندا کروانے کا یہ واقعہ پاکستانی تاریخ میں اپنی نوعیت کا پہلا سکینڈل ہے۔یہ تاثر تو عام تھا کہ خواتین پولیس کے تعاون سے جنسی کا روبار کے اڈے چلاتی ہیں لیکن ایک خاتون پولیس افسر کا اپنی ماتحت پولیس اہلکار لڑکیوں سے جنسی دھندا کروانے کے بارے میں اس سے قبل کبھی نہ سنا تھا۔اس سکینڈل نے لیڈیز پولیس ڈیپارٹمنٹ کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔قدامت پسند پاکستانی معاشرے میں پہلے ہی خواتین کے پولیس میں بھرتی ہونے کو اچھی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا تھا اور اس واقعے کے بعد خدشات ظاہر کیے جا رہے ہیں کہ خواتین پولیس میں بھرتی ہونا ترک کر دیں گی۔

پولیس ذرائع اور میڈیا رپورٹس کے مطابق یہ معاملہ 08 مئی کے روز اْس وقت کْھلا جب خاتون پولیس انسپکٹر شافیہ بخت، جسے جنسی کاروبار کی سرغنہ کہا جاتا ہے، نے مبینہ طور پر دو لیڈی پولیس کانسٹیبلز کو ’ڈیوٹی‘ کے بہانے لاہور ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے ایک بلڈنگ انسپکٹر رانا شفقت شہزاد کے پاس بھیجا۔ ذرائع نے بتایا کہ لیڈیز پولیس کی محرر ستارہ نے انسپکٹر شافیہ بخت کے حکم پر درخواست گزار خاتون پولیس اہلکاروں کی ڈیوٹی بلڈنگ انسپکٹر شفقت شہزاد کے پاس لگائی جو اُس وقت اپنے ساتھیوں کے ہمراہ لاہور کے علاقہ سبزہ زار کالونی میں ایل ڈی اے کی قبضہ گروپ سے واگزار کروائی گئی کوٹھی 513 ایم بلاک میں لڑکیوں کا انتظار کر رہا تھا۔ وا ضح رہے کہ ایل ڈی اے حکام نے قبضہ گروپ سے چھڑوائی گئی کوٹھی پر شفقت شہزاد کی ڈیوٹی لگائی تھی تاکہ وہ اس کی نگرانی کرے۔ بہرحال جب خاتون پولیس افسر کے دوستوں نے مبینہ طور پر لڑکیوں کو جنسی ہوس کا نشانہ بنانے کی کوشش کی تو انہوں نے ہر طرح سے مزاحمت کی جس پر لڑکیوں کو چھوڑ دیا گیا لیکن اُنہیں اس شرط پرجانے دیا گیا کہ وہ اس معاملے کو نہیں اچھالیں گی۔ تاہم لیڈی کانسٹیبل (زنے تھانہ سبزہ زار کے سٹیشن ہاؤس آفیسر (ایس ایچ اوکو ان افراد کے خلاف درخواست دے دی اور ایس ایچ او نے اس واقعہ کی اطلاع اعلیٰ افسران تک پہنچائی لیکن پولیس نے مُلزمان کے خلاف تاحال کوئی مقدمہ درج نہیں کیاہے۔تھانہ سبزہ زار کے ایک پولیس اہلکار کا کہنا ہے کہ مقدمہ محکمانہ کارروائی کے بعد ہی درج کیا جاسکے گا۔اس گھناؤنے واقعہ کے بعد ایل ڈی اے حکام نے بھی شفقت شہزاد اور ایک چوکیدار کو نوکری سے برخاست کر دیا اور کوٹھی کو تالے لگا دیے گئے۔

3اس واقعہ کے بعد لاہور پولیس کے آپریشنل انچارج شفیق احمد نے جنسی دھندے میں ملوث ہونے کے الزام میں انسپکٹر شافیہ بخت سمیت چار کانسٹیبلز کو نوکری سے معطل کردیا۔انہوں نے ایس ایس پی کوآرڈینیشن عمران ارشد کو ہدایات دیں کہ وہ معاملے کی جلد از جلد تحقیق کرکے رپورٹ پیش کریں۔تاہم جب اس کیس کے بارے میں ہونے والی پیش رفت جاننے کے لیے ایس ایس پی عمران ارشد سے بار ہا رابطہ کرنے کی کوشش کی گئی تو ان سے بات نہیں ہو سکی ۔

دوسری طرف لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس خواجہ محمد شریف نے اس واقعہ کا از خود نوٹس لیا اور18 مئی کو ایس ایس پی آپریشن شفیق احمد کو عدالت میں طلب کیا اور جسم فروشی کے دھندے میں ملوث لیڈیز پولیس کے کیس کی سماعت 02 جون تک ملتوی کردی۔سماعت کے دوران ایس ایس پی شفیق احمد نے عدالت میں تحریری رپورٹ پیش کی جس میں بتایا گیا کہ اس معاملے میں پولیس کی ایک خاتون سب انسپکٹر اور تین کانسٹیبلوں کے ملوث پائے جانے کی اطلاعات ملی ہیں جنہیں معطل کر کے تحقیق شروع کر دی گئی ہے۔ایس ایس پی آپریشن نے کہا کہ پندرہ دن میں انکوائری مکمل کر کے عدالت کو آگاہ کر دیا جائے گا جس پر فاضل عدالت نے کیس کی سماعت 02 جون تک ملتوی کر دی۔

ابتدائی معلومات کے مطابق یہ بات سامنے آئی ہے کہ انسپکٹر شافیہ مبینہ طور پر کافی عرصے سے جنسی دھندے میں ملوث تھی اور گذشتہ چند برسوں میں اسے چار مرتبہ معطل بھی کیا گیا۔ دو ماہ پہلے اُسے اس لیے معطل کیا گیا کہ اُس نے ایک لیڈی پولیس اہلکار کو تھپڑ مارا تھا جس پرسی سی پی او لاہور پرویزراٹھور نے شافیہ کو نوکری سے برخاست کر دیا لیکن اُسے پھر بحال کر دیا گیا۔سب انسپکٹر شافیہ اب تک اس لیے بچتی رہی ہے کیونکہ اس کے اعلیٰ پولیس افسران کے ساتھ مضبوط روابط تھے۔ ایک پولیس اہلکار کے مطابق شافیہ کا طریقہ واردات یہ تھا کہ وہ سادہ لوح دیہاتی لڑکیوں کو اپنے چنگل میں پھنساتی تھی کیونکہ وہ لڑکیاں اپنے معاشی حالات سے تنگ آ کر پولیس میں بھرتی ہوتی تھیں۔سب انسپکٹر شافیہ لڑکیوں کو اپنے دباؤ میں رکھتی تھی اور لڑکیاں نوکری چلے جانے کے خوف سے جسم فروشی کادھندہ کرنے پر مجبور تھیں۔شافیہ نے جب لڑکیوں کو دھندے پر بھیجنا ہوتا تھا تو اس کے لیے کوڈ ورڈ ’ڈیوٹی‘ استعمال کرتی تھی۔شافیہ بخت اس سے قبل بھی محکمہ پولیس اور دیگر اداروں میں موجود اپنے سرپرستوں کی وجہ سے بچتی رہی اور اس مرتبہ بھی اس کے ساتھی حتی الوسع کوشش کر رہے ہیں کہ وہ قابو میں آنے سے بچ جائے کیونکہ اگر یہ معاملہ پوری طرح کھُل گیا تو شافیہ تو نوکری سے جائے گی ہی لیکن اُس کی خدمات حاصل کرنے والے افسران بھی خطرات سے دوچار ہو جائیں گے۔

Gایک طرف تو پولیس خراب ملکی حالات کو سامنے رکھتے ہوئے دہشت گردی کے سیلابی ریلے کو پنجاب میں آنے سے روکنے کے لیے جدوجہد کر رہی ہے لیکن ساتھ ہی ساتھ کرپشن کا بازار بھی گرم رکھے ہوئے ہے۔پہلے تو پولیس کے پاس یہ بہانہ تھا کہ اس کی تنخواہیں کم ہیں لیکن حکومت پنجاب کی طرف سے اُن کی ماہانہ تنخواہ میں تقریباً دو گنا اضافہ کر دیا گیا ہے اس لیے پولیس کے پاس کوئی جواز نہیں ہے کہ وہ رشوت خوری کرے۔ وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کوچاہیے کہ وہ بھی اس واقعہ کانوٹس لیں اور قصورواروں کو اس کی سزا دیں تاکہ خواتین پولیس میں موجود دیگر خواتین کا اعتماد بحال ہو

 

No comments: