منڈیلا کا خیال ہے کہ بزرگ مسائل کے حل میں مدد دے سکتے ہیں |
اس گروہ میں امریکہ کے سابق صدر جمی کارٹر اور اقوامِ متحدہ کے سابق سیکریٹری جنرل کوفی عنان بھی شامل ہیں۔
جوہانسبرگ میں اس انجمن کے قیام کی تقریب کی صدارت کرتے ہوئے جنوبی افریقہ کے نوبل انعام یافتہ آرچ بشپ ڈیسمنڈ ٹوٹو نے کہا کہ روایتی معاشروں میں گاؤں کے بزرگ بیٹھ کر مسائل حل کیا کرتے تھے۔ تاہم انہوں نے کہا کہ اب تک گلوبل ولیج یا گاؤں میں اس طرح کے بزرگ نہیں تھے۔
نیلسن منڈیلا نے کہا کہ یہ بڑے زندگی بھر کے تجربے کے بعد عقل اور آزادی کا مشورہ دے سکتے ہیں۔
سابق آئرش صدر میری رابنسن نیلسن منڈیلا کو پھلوں کا تتحفہ دے رہی ہیں |
انہوں نے کہا: ’یہ بزرگ اپنے اجتماعی تجربے، اخلاقی جرات اور قومی، نسلی یانظریاتی مفادات کی تنگ نظری سے بالاتر ہو کر کرۂ ارض کو زیادہ پرامن، صحت مند اور عدل پسند دنیا بنا سکتے ہیں۔‘
اقوامِ متحدہ کے سابق سیکریٹری جنرل کوفی عنان نے کہا کہ ملکوں اور رہنماؤں کو اکھٹے کام کرنا ہو گا۔
کوفی عنان نے کہا ’ہم سب کو قومی حدود کے آر پار اکھٹے ہو کر کام کرنے اور مسائل حل کرنے کی ضرورت ہے۔ اور میں غربت کے مسائل، ماحولیاتی تباہی، ایک سے دوسرے کو لگنے والی بیماریاں ، بین الاقوامی منظم کرائم، وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں جیسے مسائل کا حوالہ دے رہا ہوں۔ اور میں ایسے مزید بتا سکتا ہوں۔
’بڑے زندگی بھر کے تجربے کے بعد عقل اور آزادی کا مشورہ دے سکتے ہیں‘ |
امریکہ کے سابق صدر جمی کارٹر کے مطابق گروہ اس لیے بھی مفید ثابت ہو سکتا ہے کیونکہ اس کے اراکین کو اب کیریئر نہیں بنانے ہیں اور نہ ہی انتخابات جیتنے ہیں۔
’اس لیے ہم مستحق مقاصد کے حل کے لیے ناکام ہونے کا رسک بھی لے سکتے ہیں اور جب ہم کوئی ایسا کام کریں گے کہ اس میں کامیابی ہو تو ہمیں اس کا سہرا سجانے کی ضرورت بھی نہیں ہو گی۔‘
No comments:
Post a Comment